سندھ کی قومی تحریک کی سیاسی قیادت اور دانشوروں کی طرف سے سندھ میں موجود لاکھوں افغان شہریوں کی وطن واپسی کے لئے افغان حکومت کے نمائندوں، افغان دانشوروں اوردنیا کے ممالک سے رجوع کرنے اور سندھ کے خدشات سے ان کو آگاہ کرنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے. شفیع برفت

سندھ میں موجود لاکھوں افغان شہری سندھ کی ڈیموگرافی کے لئے سنگین خطرہ بن چکے ہیں، سندھ میں منشیات کرائم بڑھنے کے ساتھ بنیاد پرستی اور انتہا پسندی میں بھی اضافہ ہورہا ہے، پاکستان کے حکمران اور پنجابی اشرفیہ اور فوج لاکھوں افغان اور پشتون شہروں کو سندھ منتقل کر کے سندھی قوم کو اپنے تاریخی وطن سندھ میں اقلیت میں تبدیل کرنے کی سازش کر رہے ہیں اس لئے سندھی قوم پاکستانی ریاست اس کی فوج، سیاسی اشرفیہ، اسٹیبلشمنٹ، ریاستی اداروں حکمرانوں کو سندھ کے قومی، سیاسی اور تاریخی مفادات کا ترجمان نہیں سمجھتی ہے اس لئے سندھ کی قومی تحریک کی طرف سے افغان شہریوں کے وطن واپسی کے حوالے سے افغان حکومت اور دنیا کے ممالک سے رابطہ کرنے اور ان کے آگے سندھ کے خدشات رکھنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے، سندھی قوم سمجھتی ہے کے افغانستان میں جب تک جنگ چل رہی تھی سندھ کے لوگوں نے افغان شہروں کو سندھ میں پناہ دی مگر اس وقت افغانستان میں غیر ملکی قابض فوج افغانستان کو مکمل خالی کرتے ہوئے واپس جا چکی ہے اور ایک اسلامی حکومت افغانستان میں قائم ہے لہذا موجودہ حالات میں لاکھوں افغان شہریوں کی سندھ میں موجودگی کا کوئی سیاسی، اخلاقی اور انسانی بنیادوں پر جواز موجود نہیں رہا ہے اس لئے سندھ کی قومی تحریک، سندھ کے دانشوروں کی طرف سے افغان حکومت سے سندھ میں موجود لاکھوں افغان شہروں کو واپس افغانستان بلانے کے لئے بات چیت کرنے کا اصولی فیصلہ کیا گیا ہے، سندھ کے لوگ سمجھتے ہیں کے اس وقت جب کے افغانستان میں امن امان قائم ہوچکا ہے اس لئے افغان شہریوں کو واپس اپنے وطن افغانستان لوٹ جانا چاہیے کیوں کے افغان اور پشتون آبادی نا صرف سندھ کی ڈیموگرافی کے لئے سنگین خطرہ بن رہے ہیں بلکہ سندھ کی معشیت سماج، معاشرت، امن امان کے لئے بھی سوالیہ نشان بن رہے ہیں اس لئے سندھ کی قومی تحریک اور سندھ کے دانشوروں کی طرف سے مشترکہ طور پر فیصلہ کیا جاتا ہے کے سندھ میں موجود لاکھوں افغان شہریوں کی باعزت وطن واپسی کا وقت آچکا ہے لہذا افغان حکومت اپنے شہریوں کو واپس افغانستان بلائے کے لئے ٹھوس اقدامات کرے اور اپنے شہریوں کو سندھ سے واپس افغانستان بلانے کی سنجیدہ اور مخلصانہ کوششوں کو تیز کرے کیوں کے یہ خود افغان حکومت کی سیاسی ساکھ کے لئے بھی لازم ہے کے افغان شہری لاکھوں کی تعداد میں اپنے ملک سے باہر کیوں ہیں کیا افغان شہری افغان حکومت کو اپنا سیاسی اور اخلاقی حوالے سے نمائندہ حکومت تسلیم نہیں کرتے ہیں اس لئے اس لئے یہ افغان حکومت کی سیاسی ساکھ کے لئے بھی ضروری ہے کے افغان شہری اپنے وطن میں اپنی حکومت کے زیر اثر رہیں ورنہ دنیا کو یہ پیغم جائے گا کے افغان عوام موجودہ افغان حکومت کو اپنا سیاسی نمائندہ حکومت نہیں سمجھتے ہیں، سندھ کی قومی تحریک جسمم کی طرف سے سندھ کے دانشوروں پر مشتمل ایک قومی وفد تشکیل دینے کی تجویز بھی سندھ کے سیاسی رہنماؤں اور دانشوروں کے آگے رکھی ہے کے اس اہم سیاسی ایجنڈہ پر پوری سندھی قوم اور قومی تحریک کی قیادت دانشور سب مل کر کام کریں تاکہ اور مشترکہ طور پر سندھ میں افغان حکومت کے نمائندوں، دانشوروں اور سفیروں سے مل کر ان کو اپنے خدشات سے آگاہ کریں کے اب وقت آگیا ہے کے سندھ میں موجود لاکھوں افغان شہریوں کو واپس اپنے وطن لوٹ جانا چاہیے، اس سلسلے میں افغان حکومت اپنے شہریوں کو واپس بلانے کے لئے احکامات جاری کرے جسمم کی جانب سے اس سلسلے میں بیرون ممالک جتنے بھی افغانستان کے سفارت خانے ہیں ان سے رابطے کئے جائیں گے اور جسمم یورپ، امریکہ، کیناڈا برطانیه سمیت دنیا میں رہنے والے سندھیوں سے بھی اپیل کرتی ہے کے وہاں افغان سفارت خانوں سے رابطے کرتے ہوئے ان کو افغان حکومت کے لئے یاداشت نامہ پیش کیا جائے تاکہ سندھ میں موجود لاکھوں افغان شہریوں کی وطن واپسی کے لئے افغان حکومت اپنے فرائض پورے کرتے ہوئے کردار ادا کرے، اس سلسلے میں جسمم کی جانب سے پوری دنیا کے ممالک سے بھی رابطے کئے جائیں گے اور دنیا کو آگاہ کیا جائے گا کے سندھ میں افغان اور پشتون شہریوں کی بڑی تعداد میں موجودگی کی وجہ سے سندھ کی ڈیموگرافی، معاشرت، امن امان اورمعشیت پر منفی اثرات کس طرح پڑرہے ہیں لہذا ان حقائق سے پوری دنیا کو اگاہ کیا جائے گا خصوصاً غیر ملکی اور دوسرے صوبوں کے لوگوں کی وجہ سے سندھی سماج میں بنیاد پرستی کے خیالات میں اضافہ ہورہا ہے، منشیات اور کرائم بڑھ رہا ہے لہذا سندھ کی قومی تحریک کی سیاسی قیادت اور دانشوروں کی طرف سے افغان حکومت سمیت پوری دنیا کے ممالک سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے.

شفیع برفت
چیئرمین جئے سندھ متحدہ محاذ

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *